
انسان الله کی ذات کا پرتو ہےاُس نے اپنی ذات کی خوبیاں انسان کو عطا کی
انسان الله کی ذات کا پرتو ہے۔ اُس نے اپنی ذات کی خوبیاں انسان کو عطا کی ہیں۔
اُن خوبیوں سے الله کی ذات کا اظہار ہوتا ہے۔ جب انسان رحمٰن، رحیم، کریم، غفُور اور ستّار جیسی خوبیوں کا حامل ہوتا ہے تو دنیا انسانِ کامل صلّی الله علیه وسلّم جیسی ہستی کی برکات سے لطف اندوز ہوتی ہے۔
اور جب انسان قہّار اور جبّار جیسی صفات کو
اپنے اوپر حاوی کر لے تو انسان فرعونیت اور نمرودیت کا
لباده اوڑھ کے دنیا کو تباه اور برباد کر کے رکھ دیتا ہے۔
سوچنے والی بات ہے کہ کیا انسان کے اندر اتنا سب کچھ موجود ہے؟
ہاں مٹی اپنے سینے پر سنگلاخ چٹانوں کے بلند و بالا پہاڑوں کا، برف پوش چوٹیوں، وسیع و عریض سمندروں، سبز و شاداب میدانوں، بے آب و گیاہ ویرانوں، خوفناک اور تاریک جنگلوں کا بوجھ اُٹهائے ہوئے ہے۔
اور یہی سب کچھ انسان کے اندر بهی موجود ہے۔ پہاڑوں جیسی ہمت، برف پوش چوٹیوں جیسی اونچائی اور سرد مہری، سمندروں جیسی روانی اور گہرائی، شاداب میدانوں سی زرخیزی، ویران میدانوں کا سا بنجر پن۔اُداسی، ویرانی اور ان تاریک جنگلوں سی تاریکی سب انسان کے اندر موجود ہے۔
اتنی صلاحیتوں کا حامل انسان لمحوں میں مایوس اور نا امید ہوجاتا ہے۔ دراصل انسان کهنکتے ہوئے گارے اور چپکتی ہوئی مٹی سے بنا ہوا ہے۔ کهنکتا ہوا گارا ذرا سی حرکت پر بجنے لگتا ہے۔ انسان بهی ایک لمحے میں خوش ہوجاتا ہے اور چپکتی ہوئی مٹی سے بنا انسان فورًا پُر نم ہوجاتا ہے۔*
یہ مٹی کی سرشت ہے کہ وه ذرا سی خشکی ملنے پر خشک اور ہلکی سی پهوار پڑنے پر ہی نم ہوجاتی ہے۔ انسان بهی ذرا سی بات پر خوش ہوجاتا هے اور ذرا سی بات پر دُکهی اور پُر نم آنسو بہانے لگتا ہے۔ یہ کهنکتا ہوا گارا بات کی حقیقت اور مصلحت جانے بغیر واویلا کرنا شروع ہوجاتا ہے۔
کاش! انساں سمجهتا کسی دوسرے کا بهی انساں هونا۔*