
قیام میلاد اور صلوٰۃ و سلام
قیام میلاد اور صلوٰۃ و سلام
بعض لوگ میلاد پاک میں قیام تعظیمی اور صلوٰۃ و سلام کو بھی بدعت مذمومہ کہتے ہیں حالانکہ یہ طریقہ ان کے اکابر علماء اور مشائخ میں بھی جاری رہا اور جلیل القدر ائمہ دین اور اعلام امت عمل مولد و قیام میلاد کے عامل رہے۔ انسان العیون (سیرۃ حلبیہ) میں ہے
ومن الفوائد انہ جرت عادۃ کثیر من الناس اذا سمعوا بذکر وضعہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ان یقوموا تعظیما لہٗ صلی اللّٰہ علیہ وسلم وہٰذا القیام بدعۃ لا اصل لہا ای لکن ہی بدعۃ حسنۃ لانہٗ لیس کل بدعۃ مذمومۃ (سیرت حلبیہ جلد اول صفحہ ۸۰)
ترجمہ: ’’اور فوائد میں سے ایک فائدہ یہ ہے کہ اکثر و بیشتر لوگوں کی یہ عادت جاری ہو گئی کہ جب حضور ﷺ کی پیدائش مبارک کا ذکر سنا تو فوراً حضور ﷺ کی تعظیم کے لئے کھڑے ہو گئے اور یہ قیام بدعت ہے۔ جس کی کوئی اصل نہیں۔ یعنی بدعت حسنہ ہے۔ کیونکہ ہر بدعت مذمومہ نہیں ہوتی۔‘‘
آگے چل کر اسی صفحہ پر فرماتے ہیں
وقد وجد القیام عند ذکر اسمہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم من عالم الامۃ ومقتدی الائمۃ دینا و ورعا الامام تقی الدین السبکی وتابعہٗ علٰی ذٰلک مشائخ الاسلام فی عصرہٖ فقد حکٰی بعضہم ان الامام السبکی اجتمع عندہٗ جمع کثیر من علماء عصرہٖ فانشد منشد قول الصرصری فی مدحہٖ ﷺ۔
قلیل لمدح المصطفٰی الخط بالذہب
علٰی ورق من خط احسن من کتب
وان تنہض الاشراف عند سماعہ
قیاماً صفوفاً او جیشًا علی الرکب
فعند ذٰلک قام الامام السبکی رحمہ اللّٰہ وجمیع من فی المجلس فحصل انس کبیر بذالک المجلس ویکفی مثل ذٰلک فی الاقتداء
(انتہیٰ، سیرۃ حلبیہ جلد اول صفحہ ۸۰)
ترجمہ: ’’حضور سید عالم ﷺ کے ذکر مبارک کے وقت قیام پایا گیا ہے امت محمدیہ کے جلیل القدر عالم امام تقی الدین سبکی سے جو دین اور تقویٰ میں ائمہ کے مقتدا ہیں اور اس پر ان کے تابع ہوئے تمام مشائخ اسلام جو ان کے ہم عصر تھے۔ چنانچہ منقول ہے کہ امام سبکی کے پاس ان کے ہم عصر علماء کرام بکثرت جمع ہوئے۔ ایک مداح رسول نے حضور ﷺ کی مدح میں صرصری، رحمۃ اللہ علیہ کے یہ اشعار پڑھے، اگر چاندی پر سونے کے حروف سے بہترین کاتب حضور ﷺ کی مدح لکھے تب بھی کم ہے۔ بے شک عزت و شرف والے لوگ حضور ﷺ کا ذکر جمیل سن کر صف بستہ قیام کرتے ہیں یا گھٹنوں پر دو زانو ہو جاتے ہیں۔ یہ اشعار سن کر امام سبکی کھڑے ہو گئے اور ان کے ساتھ تمام اہل مجلس، مشائخ و علماء بھی کھڑے ہو گئے اور اس وقت بڑا انس حاصل ہوا۔ مجلس پر ایک عجیب سی کیفیت طاری ہو گئی اور اس قسم کے واقعات مشائخ و علماء کی اقتداء کے بارے میں کافی ہوتے ہیں۔ انتہیٰ
ثابت ہوا کہ مسئلہ قیام میں امام سبکی اور ان کے ہم عصر مشائخ و علماء کی اقتدا کافی ہے۔ بالکل یہی مضمون اور منقولہ بالا دونوں شعر اور اس کے بعد امام سبکی رحمۃ اللہ علیہ اور ان کے تمام رفقا اہل مجلس کا قیام علامہ شیخ اسمٰعیل حقی بروسی حنفی رحمۃ اللہ علیہ نے تفسیر روح البیان میں ارقام فرمایا ملاحظہ فرمائیے۔ (تفسیر روح البیان جلد ۹ ص ۲۵)
اور حاجی امداد اللہ صاحب فیصلہ ہفت مسئلہ میں فرماتے ہیں ’’اور مشرب فقیر کا یہ ہے کہ محفل مولد میں شریک ہوتا ہوں بلکہ ذریعہ برکات سمجھ کر ہر سال منعقد کرتا ہوں اور قیام میں لطف و لذت پاتا ہوں۔‘‘ (فیصلہ ہفت مسئلہ مطبوعہ قیومی پریس کانپور ص ۵)
یہی حاجی امداد اللہ صاحب شمائم امدادیہ میں فرماتے ہیں اور قیام کے بارے میں کچھ نہیں کہتا۔ ہاں مجھ کو ایک کیفیت قیام میں حاصل ہوتی ہے۔ (شمائم امدادیہ ص ۸۸)
محفل میلاد مبارک میں حضور ﷺ کی تشریف آوری کے بارے میں حاجی امداد اللہ صاحب مہاجر مکی رحمۃ اللہ علیہ شمائم امدادیہ میں فرماتے ہیں ’’ہمارے علماء مولد شریف میں بہت تنازع کرتے ہیں، تاہم علماء جواز کی طرف بھی گئے ہیں، جب صورت جواز کی موجود ہے پھر کیوں ایسا تشدد کرتے ہیں اور ہمارے واسطے اتباع حرمین کافی ہے۔ البتہ وقت قیام کے اعتقاد تولد کا نہ کرنا چاہئے اگر احتمال تشریف آوری کا کیا جاوے مضائقہ نہیں کیونکہ عالم خلق مقید بزمان و مکان ہے لیکن عالم امر دونوں سے پاک ہے۔ پس قدم رنجہ فرمانا ذاتِ بابرکات کا بعید نہیں۔‘‘ انتہیٰ (شمائم امدادیہ ص ۹۳)
دنیا میں کروڑوں جگہ محافل میلاد منعقد ہوتی ہیں لیکن کسی محفل میں بھی حضور ﷺ کا قدم رنجہ فرمانا حضرت حاجی صاحب کے نزدیک بعید نہیں اور حضور ﷺ کی تشریف آوری کا خیال کرنا بھی شرعاً کوئی مضائقہ نہیں رکھتا۔ جو لوگ حضور ﷺ کے تشریف لانے کے منکر ہیں اس اعتقاد کو معاذ اللہ کفر و شرک سمجھتے ہیں، وہ شمائم امدادیہ کی منقولہ بالا عبارت کو غور سے پڑھیں۔
رہا یہ امر کہ قیام میں صلوٰۃ و سلام پڑھنے کی کیا دلیل ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ ارشادِ خداوندی ’’صَلُّوْا عَلَیْہِ وَسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا‘‘ مطلق ہے۔ ہر وہ حالت جو شرعاً صلوٰۃ و سلام کے لئے مکروہ اور نا مناسب نہیں آیت کریمہ کی رو سے اس میں صلوٰۃ و سلام جائز ہو گا۔ ساتھ ہی یہ امر بھی ملحوظ رہے کہ قیام میلاد ذوق و شوق کی حالت میں کیا جاتا ہے۔ اور یہ حال درود و سلام کے لئے بہت موزوں اور مناسب ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس وقت یا ’’حرف ندا کے ساتھ بصیغۂ خطاب صلوٰۃ و سلام پڑھتے ہیں کیونکہ حالت ذوق میں محبوب کو خطاب کرنا فطری امر ہے۔ اور ’’یا‘‘ حرف ندا سے خطاب کو ناجائز سمجھنا انتہائی محروم القسمتی کی دلیل ہے۔ اور ادفتحیہ میں ص ۳۲ سے ص ۳۴ تک ’’الصلٰوۃ والسـلام علیک یا رسول اللّٰہ‘‘ کا ورد موجود ہے اور اس میں سترہ مرتبہ ’’یا‘‘ حرف ندا کے ساتھ صلوٰۃ و سلام وارد ہے۔ اسی اور ادفتحیہ کے متعلق حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ انتباہ فی سلاسل اولیاء اللہ میں فرماتے ہیں ’’وچوں سلام دہدبا ورادفتحیہ خواندان مشغول شود کہ از تبرکات انفاس ہزار و چہار صد ولی کامل جمع شدہ است‘‘ جب سلام پھیرے اور ادفتحیہ پڑھنے میں مشغول ہو کہ ایک ہزار چار سو ولی کامل کے متبرک کلام سے جمع ہوا ہے۔
(انتباہ فی سلاسل اولیاء اللہ ۱۲۴، ۱۲۵ مطبوعہ آرمی برقی پریس دہلی)